ابنِ انشاء سے کسی نےپوچھا، آپکے الفاظ میں یہ رونق کیسے آئی؟ انہوں نے جواب دیا، کثرت کرنے سے۔ سائل نے پوچھا کثرت کا ادب سے کیا تعلق تو جواب ملا جسمانی کثرت نہیں بلکہ دماغی کثرت۔ اچھی کتاب اور ادب کا مطالعہ دماغ کیلئے ورزش کا کام کرتا ہے۔ آجکل ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ اب طلباء کے ہاتھوں میں کتاب کی جگہ موبائیل نظر آنے لگے ہیں۔ جو بے شمار فوائد کے ساتھ ساتھ ذوقِ مطالعہ میں کمی اور نوجوان نسل میں اچھے ادب نویسوں کے فقدان کا سبب ہے۔ سائنس آپکی زندگی آسان بناتی ہے مگر ادب آپکو زندگی گزارنا سکھاتی ہے ۔ مشینوں سے زیادہ لگاؤ انسانی جذبات کیلئے مضر ہے۔ اکثر لوگ جدید آسائشات کی تگ ودو میں اپنوں کیلئے وقت نہیں نکال پاتے، تبھی انکے اپنے بھی صرف آسائشات کی حد تک اپنے رہ جاتے ہیں۔ بقول اقبال! ؎ ہے دل کیلئے موت مشینوں کی حکومت احساسِ مروت کو کچل دیتے ہیں آلات شاعر اور ادیب تو ایک طرف، آجکل کے عاشق بھی صرف فیسبک تک محدود ہیں۔ کہاں وہ وقت کہ “قاصد کے آتے آتے خط ایک اور لکھ رکھوں” اور کہاں آج کی وٹس ایپ اور فیسبک کی لائیو چیٹ۔ کہاں قیس عامر کی اپنی سانولی لیلیٰ کے قصیدے اور کہاں آج کے عاشقوں کی اپنی محبوباؤں کی فلمی اداکاراؤں سے تشبیح۔ اسی لئے تو کہتے ہیں۔ انٹرنیٹ ہوتا جو پہلے ہجر کی رات بھی ڈھل سکتی تھی حد تو یہ ہے کہ آجکل عشق حقیقی کو بھی لوگ تقویٰ کے بجائے اسلامی پوسٹس کو شئیر کرنا سمجھنے لگے ہیں۔ ہماری اسطرح کی باتیں سننے کے بعد ہم پر الزام لگایا جاتا ہے کہ یہ لوگ سائنسی طرقی کے مخالف ہیں۔ ایسا بالکل بھی نہیں ہے، ہمارا مقصد صرف اتنا ہے کہ اس ٹیکنالوجی کے دور میں جذبات پیچھے نہ رہ جائیں ورنہ انسان ہار جائینگے۔
May 17, 2020
Aftab Saqib